ایران کے حملوں کی شدت اور تباہی سے گھبرا کر اب صہیونی وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ امریکہ اس کی بچی کھچی ساکھ کو بچا لے
چھ جنوری ۲۰۲۵ء کو اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ’گریٹر اسرائیل‘ کا متنازع نقشہ جاری کیا گیا۔حالانکہ یہ پہلی بار نہیں تھاکہ اس طرح کا نقشہ دنیا کو دکھایا گیا۔ اس نقشے کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ مملکت اسرائیل تقریباً تین ہزار سال پہلے قائم ہوئی۔ اس کے پہلے تین بادشاہوں نے مجموعی طور پر۱۲۰؍ سال تک حکمرانی کی۔یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ۹۳۱؍ قبل مسیح میں بادشاہ سلیمان کی وفات کے بعد مملکت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔یہ تقسیم صدیوں تک سیاسی تنازعات کا باعث بنی ،لیکن جلاوطنی کے دوران یہودی اپنی ریاست کی بحالی کے لئے کوشاں رہے، آخر کار ۱۹۴۸ء میںمغربی اور کچھ علاقائی طاقتوںکی مدد سے فلسطینی سرزمین ر قبضہ کرکے ریاست اسرائیل کاقیام ہوا۔ بہت سے یہودی اس خطے کو ’ایرٹز اسرائیل‘ یا ’لینڈ آف اسرائیل‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔اس میں فلسطین، شام، لبنان، اور اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔جنوری۲۰۲۴ء میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا ایک انٹرویو وائرل ہوا، جس میں گریٹر اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ’ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی۔‘ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ذریعہ پہلے غزہ کے ساتھ لبنان، شام،عراق، یمن اور اب ایران میں فوجی یلغار کیا اسی منصوبہ کا حصہ ہے؟ کیوں کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اگر واقعی اسرائیل اور اس کےمعاون ملک اس منصوبہ پر کام کر رہے ہیں تو خطہ کے دوسرے ملکوں اور ان کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کا وقت آ گیا ہے۔ ایران نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ اگر مضبوط قوت ارادی ہو تو ’گریٹر اسرائیل‘کے منصوبہ کو بھی خاک میں ملایا جا سکتا ہے اور موجودہ مقبوضہ فلسطین (اسرائیل)کو بھی آزاد کروایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم مسئلہ کا دو ریاستی حل تو نکالا ہی جا سکتا ہے، لیکن اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ امت مسلمہ کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اورمشترکہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔
ایران نےپہلی بار اپریل۲۰۲۴ءمیں براہِ راست اسرائیل پر ڈرون اور بیلسٹک میزائل داغے تھے۔یہ ایک غیر متوقع اور غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس وقت اسرائیل کے دفاعی نظام نے بیشتر میزائلوں کو روک لیا، لیکن یہ حملہ علامتی طور پر بہت اہم تھا۔ایران نے اسی وقت دنیا کو دکھادیا تھا کہ وہ اسرائیل پر براہِ راست حملے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسی وقت یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کی حد اور صلاحیت کیا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کا امریکہ پر انحصار بھی کھل کر سامنے آگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایران نے نفسیاتی اور سیاسی سطح پر برتری حاصل کر لی ، لیکن عسکری لحاظ سے اسرائیل کو بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچا پایا تھا۔ ۱۳؍ جون۲۰۲۵ءکو اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو وسعت دینے کے الزام کے ساتھ ایران کی متعدد تنصیبات پر اچانک حملے کر دئے۔ان حملوں کو ’آپریشن رائزنگ لائن‘ کا نام دیا گیا۔ اسرائیلی افواج اور موساد نے ایران کے جوہری مراکز، عسکری تنصیبات اور شہری علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ان اسرائیلی حملوں میں ایران کے کئی سینئر فوجی افسران، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رہنما، چوٹی کے جوہری سائنس دان اور ایرانی وزارت صحت اورتقریباً۲۰۰؍شہری مارے گئے۔ اس کے کچھ گھنٹوں کے بعد ہی ایران نے ’آپریشن وعدۂ صادق‘ کے تحت جوابی کارروائی کی، جس میں ایران نے بیلسٹک میزائلوں اور خودکار ڈرونز کے ذریعے اسرائیل کے فوجی اور انٹیلی جنس مراکز کے ساتھ بعض رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا۔اسرائیل نے پہلی بار ایسے شدید حملوں کا سامنا کیا۔ ایران کی جوابی کارروائی سے نہ صرف اسرائیل، بلکہ دنیا بھی حیران رہ گئی۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کو ایسا دندان شکن جواب ملے گا۔ دونوں ملکوں کے دمیان یہ جھڑپ دراصل ایک دیرینہ عداوت کی تازہ ترین شکل ہے، جس میں تہران اسرائیل کے وجود کو چیلنج کرتا آیا ہے اور اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔ اکتوبر۲۰۲۳ء میں حماس کےحملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی کشیدگی نے دونوں ممالک کو بالآخر براہ راست تصادم کی راہ پر ڈال دیا۔ اسرائیل نے ایرانی حمایت یافتہ تنظیموں خصوصاً حماس اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کے بعد براہ راست ایران کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ دونوں ممالک اس سے قبل اپریل اور اکتوبر۲۰۲۴ءء میں محدود پیمانے پر حملے کر چکے تھے۔ اسرائیل کے تازہ حملے اس وقت شروع ہوئے، جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو دی گئی دو ماہ کی مہلت ختم ہو گئی، جس کا مقصد ایران کو جوہری معاہدے پر آمادہ کرنا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایران پر اسرائیل کے حملوں میں براہ راست نہ سہی، در پردہ امریکہ بھی شامل ہے۔ ایران کے حملوں کی شدت اور تباہی سے گھبرا کر اب صہیونی وزیر اعظم اس بات کے لئے کوشاں ہےکہ امریکہ اس کی بچی کھچی ساکھ کو بچا لے۔ نیتن یاہو کو امید تھی کہ ایران کے خلاف یلغار کرتے ہی امریکہ، یورپی ممالک اورخطے کے کچھ ’پٹھو‘ ملک اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں گے اور ایران کو بے دست و پا کر دیں گے، لیکن ایران نے جس قوت ارادی، پختگی اور طاقت و ہمت کا مظاہرہ کیا، اس نے سب کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ناجائز یہودی ریاست سے آنے والے تباہی کے مناظر ایران کی طاقت اور ہمت کی گواہی دے رہے ہیں۔ آج تصویریں دیکھکر یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ تباہی کے یہ مناظر غزہ کے ہیں یا اسرائیل کے۔ صہیونی ریاست کا کوئی بھی شہر ایران کے میزائلوں سے محفوظ نہیں ہے۔اسرائیل کےمیزائل شکن دفاعی نظام یعنی ’آئرن ڈوم‘کے بارے میں بچپن سے سنتے آئے ہیں، لیکن وہ غبارہ ثابت ہوا ہے۔ وہیں ایران نے دہائیوں کی پابندی کے باوجود جو عسکری صلاحیت حاصل کی ہے، وہ نا قابل تصور ہے۔ یہ خطہ کے ان ملکوں کے لئے ایک سبق ہے جو عسکری لحاظ سے مضبوط تو ہونا چاہتے ہیں، لیکن وہ پوری طرح سے امریکہ اور مغربی ملکوں پر منحصر ہیں۔ یہ ملک اگر واقعی خطہ میں امن چاہتے ہیں اور اسرائیل کو ایک ناسور سمجھتے ہیں تو انھیں بھی جدید ٹکنالوجی، فوجی صلاحیتوں اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار ختم کرنا ہوگا۔
اگر صہیونوں کی ’گریٹر اسرائیل‘ کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے تو خلیجی ممالک کو خود انحصار بننا ہوگا۔ اس کے لئے سب سے پہلے انھیں خطے کو امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے پاک کرنا ہوگا۔ کیوں کہ پچھلی کئی دہائیوں سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی نے خطہ میں انتشار اور خون خرابہ کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے۔انکی موجودگی سے پورے خطے کی سیاست، سلامتی، اور معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یہ موجودگی صرف فوجی نہیں بلکہ سفارتی، انٹیلی جنس، اور معاشی سطح پر بھی پائی جاتی ہے۔اس وقت قطر، بحرین، کویت، عراق، سعودی عرب، اردن، شام،متحدہ عرب امارات، ترکی، اور عمان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں برطانیہ، فرانس، جرمنی، کناڈا، آسٹریلیاکے تقریباً ۵۰؍ ہزار فوجی موجود ہیں۔مشرقِ وسطیٰ میںان فوجی اڈوں کے قیام کا مقصد دہشت گردی کا مقابلہ کرنا بتایا گیا ہے، جبکہ حقیقت میں ایران پر کنٹرول، اسرائیل کا تحفظ اور یہاں کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرناہی اصل مقصد ہے۔لہذا اگر مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف متحد ہو جائیں تو یہ دنیا کی سیاست، سلامتی، اور معیشت میں ایک انقلابی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔کچھ لوگوں کا ماننا ہےکہ ایسا ہونا نہایت مشکل، تقریباً ناممکن ہے اور اگر ہو بھی جائے تو اس کے نتائج پیچیدہ اور خطرناک ہوں گے۔لیکن اس وقت جو انتشار و خلفشار اور خون خرابہ ہو رہا ہے، اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ یا پھر ’گریٹر اسرائیل‘ کے ناپاک منصوبہ سے زیادہ تو خطرناک نہیں ہو سکتا؟بہر حال، بے پناہ دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کو ماضی سے سبق لیتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنی ہی ہوگی۔ ایران نے کم از کم ان پر غور و فکر کرنے کا راستہ تو کھول ہی دیا ہے۔
( مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)
yameen@inquilab.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے