
موجودہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکہ کا کردار اور اسرائیلی جارحیت کے بڑھتے ہوئے خطرات
گزشتہ دنوں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا کہ “اب آسمان ہمارے قابو میں ہے” تو دنیا بھر کے مبصرین نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مشرق وسطیٰ ایک نئی اور ممکنہ طور پر تباہ کن جنگ کے دہانے پر ہے۔ صدر ٹرمپ کا لہجہ غیر معمولی حد تک جارحانہ تھا، اور ان کا ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے غیر مشروط سرنڈر کا مطالبہ عالمی سفارتی روایتوں سے ہٹ کر ایک خطرناک پیغام تھا۔ تاہم، اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس نے دنیا کو چونکا کر رکھ دیا۔
ایران نے نہ صرف امریکہ اور اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کا جواب دیا بلکہ اپنی دفاعی اور جارحانہ صلاحیت کا ایسا مظاہرہ کیا جو کئی دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا گیا۔ تہران کی میزائل کارروائیوں اور اسرائیل کے حساس علاقوں پر حملوں نے یہ واضح کر دیا کہ ایران محض زبانی دعوے کرنے والا ملک نہیں رہا بلکہ اپنے الفاظ کو عملی قوت میں تبدیل کرنے کی استعداد بھی رکھتا ہے۔
آج کی جنگیں محض دو ریاستوں کے درمیان شروع ہو کر جلد ہی عالمی لابیوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی دراصل ان دو عالمی نظریاتی بلاکس کا عکس بن چکی ہے جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی کھڑے ہیں، اور دوسری طرف وہ ممالک اور گروہ جو امریکی تسلط اور اسرائیلی پالیسیوں کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔ اس پورے تناظر میں اسرائیل کی پالیسیوں پر غیر جانب دار نگاہ ڈالنا بے حد ضروری ہے۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ اور مغربی کنارے میں کی گئی بمباری نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی جنگی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل نے اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی، جاں بحق یا شدید زخمی ہوئے۔ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا ان حملوں پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں، لیکن اسرائیل کے خلاف کارروائی کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی۔
ایسے میں ایران کی جانب سے جوابی حملے، خاص کر ایک اسرائیلی اسپتال پر حملہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے بحث طلب ضرور ہیں۔ اسلامی اصولوں میں شہریوں، زخمیوں اور علاج گاہوں کو نشانہ بنانا صریحاً ممنوع ہے۔ اسلامی جنگی اخلاقیات میں دشمن کے بھی بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کا حکم ہے، اور یہی اصول مسلمانوں کو اخلاقی برتری عطا کرتے ہیں۔ اگر ایران نے واقعی ایک اسپتال کو دانستہ نشانہ بنایا ہے تو یہ عمل اسلام کے جنگی اصولوں کے منافی ہے اور اس پر شدید نظرثانی کی ضرورت ہے۔
تاہم یہاں ایک پیچیدہ پہلو بھی زیر غور آتا ہے۔ اسرائیل پر یہ الزام بھی عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ اپنے فوجی ٹھکانے شہری عمارتوں اور اسپتالوں کے اندر یا قریب قائم کرتا ہے تاکہ جوابی حملے کی صورت میں دشمن کو اخلاقی دباؤ میں لایا جا سکے۔ اس حکمت عملی سے عام شہریوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور ہسپتال جیسے حساس ادارے بھی میدان جنگ بن جاتے ہیں۔ اگر ایران کا ہدف درحقیقت کوئی عسکری تنصیب تھی جو اسپتال کے اندر چھپی ہوئی تھی، تو صورت حال کا اخلاقی و قانونی تجزیہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
صحافتی غیر جانب داری کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت خطہ ایک ایسے مرحلے پر کھڑا ہے جہاں ہر کارروائی کے عالمی اور اخلاقی نتائج ہیں۔ ایران کو چاہیے کہ وہ اپنے ردعمل میں صبر و تدبر کا مظاہرہ کرے تاکہ وہ عالمی رائے عامہ میں اسرائیل کے مقابلے میں ایک مظلوم اور اصول پسند ریاست کے طور پر جانا جائے، نہ کہ ایک جوابی جارح۔ اسی طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی اسرائیل کی کارروائیوں پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے ایک واضح اور منصفانہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔
یہ جنگ اگر پھیلی تو اس کا نقصان صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ پورا مشرق وسطیٰ، اور بالآخر پوری دنیا، اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ عالمی قوتیں محض بیان بازی سے آگے بڑھ کر ایک باوقار اور دیرپا حل کی طرف اقدامات کریں، ورنہ انسانیت کی یہ خونچکاں کہانی یونہی جاری رہے گی۔