
ایران، جو ایک طویل عرصے سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتا آیا ہے، آج خود ایک شدید داخلی و خارجی بحران کا شکار نظر آتا ہے۔ جب ہم ایران کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں، تو سب سے پہلی چیز جو محسوس ہوتی ہے وہ عوام کی اپنی حکومت سے شدید ناراضگی اور بے زاری ہے۔ ایران کے عام شہری، خاص طور پر نوجوان طبقہ، اپنی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے نظام میں سانس لے رہے ہیں جہاں ان کی آواز دبائی جاتی ہے، آزادی محدود کی جاتی ہے، اور معیشت ان کے خوابوں کو کچل دیتی ہے۔
ایرانی عوام سے ملاقاتوں اور مشاہدات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اپنی حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔ سب سے بڑا گلہ ایران کی خارجہ پالیسی سے ہے، جس نے نہ صرف ملک کو تنہا کر دیا بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی اسے کمزور ترین سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں، کرنسی کی بے قدری، اور مہنگائی نے ایرانی عوام کی روزمرہ زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایران آج خطے میں اپنے اتحادیوں سے بھی کٹا کٹا محسوس ہوتا ہے۔ نہ چین اور نہ روس، دونوں میں سے کوئی بھی ایران کا حقیقی دفاع کرنے کو تیار نہیں۔
روس ایران کو صرف اس وقت یاد کرتا ہے جب اسے یوکرین جنگ میں ڈرونز کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ چین ایران کا تیل تو خریدتا ہے، لیکن ایران کے دفاع یا اس کے نظریاتی ایجنڈے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ایران کو یہ مان لینا چاہیے کہ وہ ان طاقتوں کے لیے صرف ایک عارضی سہولت ہے، کوئی تزویراتی شراکت دار نہیں۔ دوسری طرف، ایران کے روایتی پراکسی گروپس—چاہے وہ حزب اللہ ہو یا عراقی ملیشیائیں—اب یا تو کمزور ہو چکی ہیں یا نئے دشمنوں میں گھر چکی ہیں۔ شام میں ایران کو نہ صرف اسرائیلی حملوں کا سامنا ہے بلکہ روس اور بشار الاسد کی حکومت سے بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ عراق میں مقتدیٰ صدر جیسے شیعہ قوم پرست رہنما ایران کی مداخلت کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔
ایران کا ممکنہ ردِ عمل، چاہے اسرائیلی حملوں کے جواب میں ہو یا امریکہ کے کسی دباؤ پر، محض علامتی ہوگا۔ ایران کے پاس نہ مالی وسائل ہیں اور نہ عسکری صلاحیت کہ وہ کسی محدود جنگ میں بھی کامیابی حاصل کر سکے۔ اب وہ دور گزر چکا جب ایران علاقے میں خود کو ایک ناقابلِ شکست قوت تصور کرتا تھا۔ اس وقت ایران کو سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک قیادت کی تبدیلی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای، جو عمر رسیدہ اور عملی طور پر گوشہ نشین ہو چکے ہیں، نہ حکومت کے ساتھ بہتر رابطے میں ہیں اور نہ ہی دفاعی حکمتِ عملی کی مؤثر نگرانی کر پا رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں ایران ایک منتشر اور غیر مربوط ریاست بنتا جا رہا ہے۔
یہ بات اب کھل کر زیرِ بحث آ رہی ہے کہ آیا ایران کو ایک نیا سپریم لیڈر تلاش کرنا چاہیے جو نہ صرف عوام کے ساتھ ہم آہنگ ہو بلکہ دنیا سے بھی ایک نئے انداز میں تعلقات قائم کر سکے۔ خامنہ ای کی ناکامی صرف نظریاتی قیادت میں نہیں بلکہ اس حقیقت میں ہے کہ وہ اپنی ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ یعنی پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ بھی موثر ہم آہنگی قائم نہیں رکھ پائے۔ بعض مبصرین یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پاسدارانِ انقلاب خود خاموشی سے قیادت کو بدلنے کا بیڑا اٹھا سکتے ہیں، جو ایک نرم بغاوت کی صورت ہو گی۔
اس تمام پس منظر میں ایران کا دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنا تقریباً یقینی لگتا ہے، خاص طور پر جب داخلی حالات ابتر ہوں، معیشت بکھر رہی ہو، اور عوامی غصہ عروج پر ہو۔ لیکن کسی نئے معاہدے یا نیوکلیئر ڈیل میں شمولیت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ایران کے اندر کوئی بنیادی سیاسی اتفاق نہ پیدا ہو۔ اور وہ اتفاق اسی وقت ممکن ہے جب قیادت کا انداز، حکمتِ عملی اور عالمی سیاست کے تئیں نقطۂ نظر یکسر تبدیل ہو۔
ایران آج ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جہاں یا تو وہ اصلاحات کی طرف بڑھے گا، یا پھر داخلی انارکی کا شکار ہو کر اپنی علاقائی حیثیت مکمل طور پر کھو بیٹھے گا۔ اس کے عظیم ماضی، باصلاحیت قوم، اور وسائل سے بھرپور زمین کو ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے، جو نظریاتی تنگ نظری کے بجائے بصیرت، دانش، اور عملی اقدامات کے ساتھ ملک کو آگے لے جا سکے۔ ایران کو اب نعروں کی نہیں، وژن کی ضرورت ہے۔