ڈونالڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، دنیا کے امیر ترین شخص، ایلون مسک، ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ ٹرمپ اور مسک کی جوڑی کو امریکہ میں بے پناہ توجہ ملی کیونکہ ان کے غیر متوقع اقدامات ہمیشہ خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ مسک کو امریکی سرکاری اداروں میں غیرضروری اخراجات اور ناکارہ ملازمین کے خاتمے کی ذمہ داری سونپی گئی، جس کے بعد ان کے فیصلوں پر شدید اعتراضات اٹھنے لگے۔

ایلون مسک نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں کیں، مگر ان کی سیاسی مداخلت نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ خاص طور پر ان کے تیار کردہ مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ “گروک” نے ہندوستان میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ اے آئی نہ صرف عوامی اور سیاسی حلقوں میں متنازعہ بنی بلکہ حکومت اور عدلیہ کی نظر میں بھی آ گئی۔

مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ترقی پذیر ممالک میں کئی خدشات پائے جاتے ہیں، جیسے کہ روزگار کے مواقع پر اس کے اثرات، انسانی ذہانت پر اس کی برتری، اور سماجی عدم توازن۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک اس ٹیکنالوجی کے فروغ میں مصروف ہیں، مگر ماہرین، جیسے کہ ڈاکٹر جیفری ہنٹن، نے مصنوعی ذہانت کے ممکنہ نقصانات پر بھی خبردار کیا ہے۔

صحافت میں بھی مصنوعی ذہانت نے اپنی جگہ بنالی ہے، جیسا کہ اٹلی میں اے آئی پر مبنی اخبار کا اجراء ایک بڑی پیش رفت ہے۔ تاہم، یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کی مکمل جگہ نہیں لے سکتی بلکہ یہ ایک معاون ٹیکنالوجی ہے۔

گروک اے آئی کے ہندوستان میں متنازعہ ہونے کی بنیادی وجہ اس کے جوابات ہیں، جنہیں حکومت کے دائیں بازو کے نظریات کے خلاف سمجھا گیا۔ بی جے پی آئی ٹی سیل نے سوشل میڈیا پر جو بیانیہ سالوں میں تیار کیا تھا، گروک نے چند دنوں میں اس پر پانی پھیر دیا۔ حکومت نے گروک کے اشتعال انگیز جوابات پر کارروائی کا عندیہ دیا ہے، جبکہ مسک کی کمپنی پہلے ہی سنسرشپ کے خلاف عدالت سے رجوع کر چکی ہے۔

مصنوعی ذہانت اور انسانی ذہانت کی یہ جنگ کس سمت جائے گی؟ حکومت، عوام، اور ٹیکنالوجی کے درمیان طاقت کا توازن کس کے حق میں ہوگا؟ یہ سوالات آنے والے وقت میں مزید اہمیت اختیار کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے